تری بانہوں کے حصار میں یہ بدن گم ہو جائے
کہ خواب کی سرحدوں پہ میرا دم گم ہو جائے
تری خوشبو کے چراغ، مری رگوں میں جلیں
کہ یہ دنیا اور اس کے سب ستم گم ہو جائے
یہ تیرے لب، یہ تیرا لمس، یہ تیرے قرب کی آگ
مرے وجود کے ہر درد کا بھرم گم ہو جائے
تری نظر کے نشے میں فنا ہوں یا زندہ
کہ تیرا لمس مرے دل کا قلم گم ہو جائے
یہ رات، تیری سانسوں کا گیت، تیری مہک
کہ وقت ٹھہرے اور لمحۂ عدم گم ہو جائے
مرے بدن پہ ترے لمس کی حکایت لکھ
کہ عشق گہرا ہو اور ہر زخم گم ہو جائے
تری قربت کے سمندر میں بہہ جاؤں، میری جان
ساغر دل کی حد، یہ جسم کا عالم گم ہو جائے